Alfia alima

Add To collaction

ہار جیت

ہار جیت
چھیدی پور کی اہیر ٹولی سے جو ملاہوا آموں کا باغ ہے اس میں بڑی چہل پہل تھی۔ نوبتیا اہیر کے یہاں رام گڑھ سے جو برات آئی تھی وہ اسی میں اتاری گئی تھی۔ متعدد چولہے روشن تھے۔ بڑی بڑی کڑھائیاں چڑھی تھیں۔ پوریاں ’’چھن رہی تھیں‘‘۔ ترکاریاں بنائی جارہی تھیں۔ براتیوں کے سامنے کیلے کے پتے اور بڑے بڑے ’’پتر‘‘ رکھے تھے۔ ’’گھراتی‘‘ گرم گرم پوریاں اور ’’بھاجی‘‘ ہر ایک کے سامنے پرس رہے تھے۔ نوجوان براتیوں میں ’’لاگ ڈانٹ‘‘ تھی کہ دیکھیں کون سب سے زیادہ کھاتا ہے۔ 

جناتیوں نے بھی پوری پر پوری پیش کرنا شروع کردی۔ کسی نےآدھ سیر، کسی نے تین پاؤ، کسی نے سیر بھر پوریاں کھائیں مگر رام دُلارے کا پیٹ تھا کہ مٹکا، کسی طرح بھرتا ہی نہ تھا۔ وہ ایک ’’بیٹھک‘‘ میں ڈیڑھ سیر پوریاں کھا گیا۔ پھر جب ہارنے والے مقابل نے کہاکہ اس کی سند نہیں، پوریاں گھی میں ترتھیں۔ مزے کی تھیں، گرم گرم اور نرم نرم تھیں۔ تان کے کھاگئے۔ روٹی کھاؤ تو البتہ جانیں مرد ہو، اس لیے لڑکی والوں سے دوسیر آٹا، آدھ سیر دال اور پچیس تیس اپلے منگائے۔ دال ایک ہاڈی میں چڑھا دی۔ آٹا کیلے کے پتے پر اپنے ہاتھ سے گوندھ ڈالا۔ اور اپلوں کو مربع صورت میں ایک کےاوپر ایک ’’سریا‘‘ کے رکھا۔ اور ان میں آگ لگادی، جب اپلے جل کے ’’لہکتے‘‘ ہوئے کوئلوں کے مانند ہوگئے تو اس نے گندھے ہوئے آٹے کی دس بارہ ’’بھوریاں‘‘ بنائیں۔ اور انھیں اس آگ میں ڈال کے ڈھک دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب دال اور بھوریاں تیار ہوگئیں تو وہ چار زانو بیٹھ کے نہایت ہی اطمینان سےانھیں بھی اڑا گیا۔ مقابل نے کان پکڑ کر کہا۔ ’’بابا میں ہارا۔تم آدمی نہیں ’راکشش‘ ہو۔‘‘ 

نوجوان جناتیوں نے طعنہ دیا، بہت سا کھالینا بڑی بات نہیں۔ ہمارے ہاں بھینسیں ناند کی ناند صاف کرجاتی ہیں، کوئی ’’گُن‘‘ ہو تو بات ہے۔ رام دلارے ہنس کے ’’برہا‘‘ گانے بیٹھ گیا۔ اب جناتیوں کی طرف سے باقاعدہ کامقابلہ شروع کردیا گیا۔ جب یہ ایک برہا گاچکتا، وہ جواباً دوسراگاتے۔ جیسے ہی وہ خاموش ہوتے یہ تیسرا شروع کردیتا۔ غرض یونہی سوال و جواب کا سامنا گھنٹوں جاری رہا۔ مگر ان میں اور رام دُلارے میں فرق یہ تھا کہ وہ سنی سنائی چیزیں گاتے تھے اور یہ خودفی البدیہہ کہتا اور گاتا جاتا تھا۔ کئی کئی آدمیوں نے مل مل کے مقابلہ کیا۔ مگر اپنےبَل بوتے پر کھڑا ہونےوالا دوسرے کے سہارے پر بھروسا کرنےوالوں کو ہمیشہ مارگراتا ہے۔ اس لیے رام دلارے کے آگے ایک کی بھی نہ چلی۔ اور سب کےسب سیلی ہوئی آتش بازی کی طرح پھس پھس کر رہ گئے۔ 

جناتیوں نے جب یہ دیکھا کہ برہے میں جیتنا محال ہے تو مقابلہ کارخل بدل دیا۔ ’’لُرکی‘‘ چھیڑدی۔ یہ بلا کی چیز ہے۔ اس کانہ ’’اور ہے نہ چھور‘‘۔ مہابھارت اور رامائن کے زمانہ سے قصہ شروع ہوتاہے اور انتہا ہوتی ہے آج کل کے زمانہ پر۔ جتنے قصے اور افسانےدیہاتوں میں بھولے بھٹکے یاد رہ گئے ہیں۔ وہ سب اس میں شامل ہیں اور سب کی تان اہیروں کی تعریف پر ٹوٹتی ہے۔ اس کا سلسلہ ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے جب جناتیوں نے ’’لرکی‘‘ چھیڑی تو رام دلارے مسکرانے لگا، وہ جانتا تھا کہ حریف نے برہے میں شکست کھانے کے بعد باقاعدہ ’’پسپائی‘‘ کی یہ صورت نکالی ہے۔ وہ خاموش ہوگیا۔ مگر موقع موقع سے اپنے وار سے باز نہ آیا۔ جہاں مقابل چوکا یا کوئی ’’کڑی‘‘ بھول کے اٹکااس نےفوراً تصحیح کردی یا لقمہ دے دیا۔ غرض لرُکی میں بھی جیت کاسہرا اسی کے سر رہااور جناتی کئی محاذ پر شکست کھانے کی وجہ سے جھلانےلگے۔ 

جب دولہا کے باپ نے دیکھا کہ جناتیوں کے تیور اچھے نہیں ہیں اور رنگ میں بھی بھنگ ہونے والا ہے تو اس نے اپنے ہفتاد سالہ تجربہ کی سے کام لیا۔ اور اپنے ساتھی نوجوانوں کو سجھایا کہ رات زیادہ آئی، تھوڑی تھوڑی دیر سو رہیں، پھر صبح مقابلہ ہوتارہے گا۔ بارے سب نےاس کا کہنامان لیا۔ چلمیں بھری گئیں۔ اکڑوں بیٹھ کے، ہاتھ کاچونگا بناکے اور اس میں چلم رکھ کے سب نےدو دو چار چارلمبےلمبے ’’کش مارے‘‘۔ اور وہیں درختوں کے نیچے تاروں کی چھاؤں میں ’’انگوچھابچھا بچھا کر لمبی تانی۔ جاگا ہوا فتنہ یوں تھوڑی دیر کے لیے سوگیا۔ 

صبح وسیرے ہی گاؤں میں شب کے مقابلے اور گاؤں والوں کی شکست کی خبر گرمیوں کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہرشخص چمار ہو یا پاسی، شیخ ہو یا برہمن پرجا ہو یا زمیندار،اپنی اپنی جگہ بل کھانے لگا۔ گاؤں کی عزت کا ہر ایک کو خیال تھا۔ یہ ناک کٹنے والی بات ہی تھی کہ چارکوس سے برات آئے اور چھیدی پور والوں کو ہر بات میں ہراکے چلی جائے۔ رام دلارے کھانے میں بھی جیتے اور گانے میں بھی۔ یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ جگ ہنسائی نہیں سہی جاسکتی تھی۔ اسی لیے اس سورما کو نیچا دکھانے اور اپنے یہاں کے اہیروں کادل بڑھانے کے لیے ہر فرقے اور پیشے کا آدمی باغ میں آکے جمع ہوگیا۔ 

وہاں وقتی اکھاڑہ کھودا گیا تھا۔ جناتی اور براتی مل جل کے ورزش کرنےوالے تھے۔ کوئی لنگوٹ کس رہاتھا،کوئی جانگیا پہن رہا تھا، کسی نے ایک معمولی سی چٹ سے ستر پوشی کرلی اور کسی نے لنگی ہی کا ’’کاچھا‘‘ باندھ لیا۔ جوان ڈنڈ، بیٹھک، سپاٹے میں مشغول ہوئے۔ لونڈے اپنی کسرت کے کرتب دکھانےلگے۔ ان میں سے کوئی چند قدم دوڑ کے آتا اور بڑی پھرتی سےہاتھوں پر ٹیک لگاکے ایک ساتھ کئی کئی قلابازیاں اس صفائی سے کھاتا کہ سوائے ہتھیلیوں اور پنجوں کے کوئی حصہ جسم خاک سے مَس نہ ہوتا۔ کوئی دوڑ کر زمین سے دوڈیڑھ گز بلند اچکتا اور ہوا میں گرہ لگاتا۔ کوئی لاٹھی کے سہارے بہت لمبا اور بلند پھاندتا۔ اور کوئی ’’جٹھرا ایسے صحیح نشانے سے پھینکتا کہ درخت کی جوسی پتی تاکتا وہی ٹوٹ کر زمین پر گرتی اوردوسروں پر ’’ریپ‘‘ تک نہ آتی۔ 

رام دُلارے بھی انگڑائی لیتا ہوا اٹھا اور لنگوٹ باندھ کے اکھاڑے میں اترگیا۔ پہلے اس نے شانوں اور گردن پر مٹی لگائی، پھر ڈنڈ کرنےشروع کیے۔ جب ان کی تعداد دو ڈھائی سو سے زائد ہوچکی تو وہ بیٹھک اور سپاٹا لگانے لگا۔ جب ان کے اعداد بھی ڈنڈ کے قریب قریب پہنچ گئے تو وہ مگدروں کی اس جوڑی کی طرف متوجہ ہوا جسے چھیدی پور میں دو ہی ایک آدمی اٹھاسکتے تھے۔ اور جو محض قوت کی آزمائش ہی کے لیے بنوائی گئی تھی۔ رام دلارے اس جوڑی کو آدھ گھنٹے تک بلاتا رہا۔ پھر براتیوں کے اصرار سے اس نے دس بارہ نوجوانوں کو زور کرایا اور اکھاڑے میں قدم گاڑکے مبارز طلب نگاہوں سے جناتیوں کو دیکھنے لگا۔ چھیدی پور والوں میں سے دو تین جوان جنھیں اپنے ورزشی جسم اور داؤں پیچ پر گھمنڈ تھا مقابلہ کے لیے اکھاڑے میں اترنے کا قصد رکھتے تھے مگر رام دلارے کی ورزش اور قوت کاحال دیکھ کر خاموش ہو رہے۔ 

رام دلارے اور اس کے ساتھی جب اکھاڑے سےنکلے تو جناتیوں نے تازے تازے دودھ سےبھری ہوئی بالٹیاں اور ایک جھوا بھر بھیگا ہوا چنا لاکے رکھ دیا۔ ہرایک چنا ’’چابنے‘‘ لگا۔ رام دلارے بھی ٹہل ٹہل کے جسم سکھاتا اور چنا کھاتا رہا۔ جب جسم خشک ہوگیا تو وہ ایک پوری بالٹی دودھ پی گیا۔ اور کپڑے پہن کے ایک درخت کے تنےسے سہارا لگاکے زمین پر بیٹھ گیا۔ اور لڑکوں کی اچک پھاند دیکھنے لگا۔ 

مگر اہیروں کی بارات میں ان کا ہیرو نچلانہیں بیٹھ سکتا۔ یہ بات نہ لڑکے والوں کو بھاتی ہے نہ تماشائیوں کو۔ براتیوں کو یہ کد ہوتی ہے کہ جناتی کسی بات میں نہ جیتنے پائیں۔ جناتیوں کو یہ خیال ہوتاہے کہ ان کو کسی نہ کسی مقابلے میں تو ہرانا ہی چاہیے۔ اس لیے اس موقع پر بھی اب اصرار شروع ہواکہ ناچ میں مقابلہ ہونا چاہیے۔ رام دلارے اس فن میں بھی براتیوں کی نظر میں یگانۂ روزگار تھا۔ اب اس سے بہتر موقع اس ’’کرتب‘‘ کے دکھانے کا اورکیا ہوسکتا تھا۔ قریب قریب گاؤں بھر جمع تھا۔ ’’سب اس بیر کے گن دیکھنےآئے تھے۔‘‘ بھلا یہ وقت خاموشی کا تھا۔ رام دلارے باوجود شدید اصرار کے پہلے تو ٹالتا رہا۔ مگر جب اہیر ٹولی سےاہیرنوں نے اپنے اپنے گھروں کے سامنے کھڑی ہوکر طعنے دینا شروع کیے اور دو ایک ناچنے تھرکنے بھی لگیں تو اسے بھی جوش آگیا اور وہ اٹھ کے کھڑا ہوگیا۔ پھر بھی ابتدا اس نے بھجن والے برہے سے کی: 

رام رام کی بھجن کرو، رام پردھرو دھیان 

محرم ہوئے وہی پہچانے، ایسا دیس ہمارا ہے 

جہاں جہاں جائے بیرن ہو بیٹھے، کھجن پھجن سے نیارا ہے 

جان برت پوچھے نا کوئی، پوچھت ناگھر بہوارا ہے 

جلک بوند گرے جل ہی ماں، نا میٹھا ناکھارا ہے 

سندر مدل بیچ نوبت باجے، مرلی بین ستارا ہے 

مرحم ہوئے وہی پہچانےایسا دیس ہمارا ہے 

رام رام کی بھجن کرو۔ رام پر دھرو دھیان 

(رام رام کرو اور اسی کا دھیان رکھو۔ ہم جہاں کے ہیں اسے سوائے محارم اسرار کے کوئی نہیں جانتا۔ ہم راس دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اجنبی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ نہ کوئی ہم سے ہماری ذات کی بابت دریافت کرتا ہے اور نہ کوئی ہمارا وطن پوچھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جہاں کے ہیں اسے سوائے محارم اسرار کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جب پانی کی بوند پانی ہی میں مل جاتی ہے تو اسکے ذائقہ میں کوئی فرق نہیں ہوجاتا۔ اور جب مختلف باجے ایک ساتھ بجتے ہیں تو ان کی آوازوں میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جہاں کے ہیں اسے سوائے محارم کے کوئی نہیں بتا سکتا۔ اس لیے بس رام رام کرو اور اسی کا دھیان رکھو۔) 

مگر جوں جوں جوش بڑھتا گیا اور اہیرنوں کی طرف سے جواب ملتا گیا وہ فی البدیہہ برہے موزوں کرتا گیا۔ ہر برہے کے بعد وہ اہیروں کا ناچ ناچتا تھا۔ کبھی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کے محص سر و سینہ زور زور سے ہلاتا تھا۔ کبھی صرف کولے اور کمر کو حرکت دیتا تھا اور کبھی ایک پاؤں کی ایڑی پر لٹو کی طرح گھومتا تھا۔ 

اہیرنیں بھی ہاتھ چمکا کے اور گالیاں دے دے کر ناچتی تھیں۔ اور ہر برہے کا جواب گیت سے دیتی تھیں۔ مگر کیلے کے درختوں میں کھجور کی مضبوطی کہاں؟ جہاں سخت جھونکے آئے اور وہ دوہرے ہوگئے۔ 

جب اہیرنوں نے دیکھا کہ ان کے یہاں گیتوں اور گالیوں کا ذخیرہ ختم ہو چلاہے، اور بیاہ کا سارا کام مقابلہ کی وجہ سے بند ہوا چاہتا ہے تو ان میں سے دو تین دوڑی ہوئی نولاکھی کے پاس پہنچیں۔ اس نے عمر کی صرف اٹھارہ بہاریں دیکھی تھیں کہ اچانک گرفتارِ خزاں ہوگئی تھی۔ جوان شوہر گونا کراتے ہی سرگباش ہوگیا تھا۔ وہ اب بیوہ تھی، نہ اس کی مانگ میں سیندور تھا، نہ ہاتھوں میں چوڑیاں۔ اور نہ بر میں رنگین ساری۔ اس کے لیے تو اب گھر کاایک کونہ تھا، خاموشی تھی اور سفید کپڑے۔ وہ بیاہ برات میں کیا منہ لیکے جاتی۔ ایسے گھر میں تو اس کی موجودگی ہی بدشگونی کے لیے کافی سمجھی جاتی۔ 

مگر سکھیاں بھلا اس وقت ان باتوں کو کیا دھیان میں لاتیں تھیں ۔ گاؤں بھر کی ناک کٹ رہی تھی۔ رام دلارے ہر ایک بات میں جیتتا چلاجارہاتھا۔ اہیر اس کے مقابلہ سے عاجز آچکے تھے۔ اب کیا اہیرنیں بھی اپنے مردوں کی طرح کم ہمت تھیں کہ ہاتھ پاؤں ڈال کے بیٹھ رہتیں۔ نولاکھی ناچنےگانے کی ماہر تھی۔ جوان تھی، بال بچوں والی نہ تھی۔ شادی بیاہ کا اسے کام کاج نہ کرنا تھا۔ اس سے زیادہ اس مقابلہ کے لیے کوئی موزوں نہ ہوسکتاتھا۔ بس سب مل کر اسے کھینچ لائیں۔ 

نولاکھی کو پس و پیش صرف اس لیے تھا کہ اس کی بیوگی کے زمانہ میں اس کے پاس بہت سے منچلے اہیروں کی طرح رام دلارے کا بھی پیغام آچکا تھا، وہ جانتی تھی کہ وہ کشتی اور پہلوانی کی طرح ناچنےگانے میں بھی مشاق ہے۔ شب سے وہ اس کا تذکرہ سن سنکر اس کی جھلک دیکھنےکے لیے بے چین بھی ہو رہی تھی۔ اسکا یہ بھی جی چاہتا تھا کہ وہ رام دلارے کو اس مقابلہ میں ہراکے یہ دکھادے کہ اس کا’’حوصلہ‘‘ کرنا ہرایک کا کام نہیں۔ مگر جتنی رام دلارے کے پاس پہنچنے اور اس سے مقابلہ کی خواہش بڑھتی اتنی ہی شرم بھی بڑھتی تھی۔ وہ اسی ہیس بیس میں تھی کہ سکھیوں نےزبردستی ساتھ چلنےپر مجبور کیا۔ اور وہ دل ہی دل میں جھیپتی، شرماتی،نظریں نیچی کیے چلی۔ 

آموں کےباغ کے پاس پہنچ کر اس نے پہلی بار مقابل پر نظر ڈالی، دیکھا ایک جوان کھڑا ہے۔ گندمی رنگ، گول چہرہ، چمکتی ہوئی آنکھیں۔ کانوں میں موٹی موٹی مرکیاں۔ گلے میں اشرفیوں کا کنٹھا، سانڈ کا سا سینہ، باگھ کی سی کمر، ساری سج دھج پہلوانی کی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے دل میں بڑی زور سے چٹکی لی۔ یہ تو مرے ہوئے سوامی سے ملتی جلتی ہوئی صورت تھی۔ گھبراکے جھجکی مگر سکھیوں نے ڈھکیل کر سب سے آگے کردیا۔ 

براتیوں میں سے کئی ایک نولاکھی کو پہچانتے تھے۔ اس کے ناچ اور اس کے حسن کے اکثر گھائل تھے۔ اس لیے رام دلارے کے گرد بیٹھے ہوئے مجمع میں ایک اضطرابی لہر سی دور گئی۔ رام دلارے نے اس کیفیت کو محسوس کیا۔ اور وہ ناچتے ناچتے ٹھٹک کے رُک گیا۔ اہیروں نے ایک دوسرے کے پہلو میں کہنیاں ماریں اور بولے۔ اب مکابلہ برابر کا بھوا، رام دلارے ایک ترپھ نولاکھی دوسری ترپھ! 

(اب مقابلہ برابر کاہوا۔ رام دلارے ایک طرف۔ نولاکھی دوسری طرف) 

رام دلارے نے نولکھی کا نام سنتے ہی اسے بغور دیکھا۔ ’’بادل ماں جیسے چندرما چمکے‘‘ ویسا ہی میلی ساری میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ اس پر آفت گئو ایسی بڑی بڑی مدھ بھری آنکھیں اور ہنس ایسی لمبی اور ٹیڑھی گردن۔ سڈول بھرا بھرا جسم، نئے پودے کی طرح نرم نرم ہاتھ پاؤں۔ پھرتیلے بچھڑے کی ایسی بوٹی بوٹی پھڑکتی ہوئی۔ ’’بڑی سندر جان پڑی۔‘‘ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے اس نے نولاکھی کو دیکھا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ کئی لبریز جام بھی چڑھالیے۔ اس لیے کہ وہ اپنے میں عجیب طرح کی سرخوشی محسوس کرکے ایک پرانا برہاناچ ناچ کے گانے لگا۔ 

ایک سمے میں ہری روپ بدل لاں، دھیلیں بیدا کا بھیس 

کھوری کا کھوری گھومے بیدوا، سہرماں کو نو ہے بیماری؟ 

اپنےمحل سے نکلن رادھا، وکھلن بیدا صورت تمہاری 

آؤ بیدا میری نگریا، پہچانو میری بیماری 

نادیکھوں توری سردی گرمی نادیکھوں توری بیجاری 

تم ناری اس بھنگ بھئی ہو بگڑ گئی ہے سب ناری 

آؤنا بیدا میری نگریا، کھدمت کر بے تمہاری 

آؤ ردیب ہم دھن دولت اور جاگہ جمیداری 

اور دیبا گوکالا کاراجوا، بیٹھل کر یاں بہاری 

ناچاہوں تور دھن دولت، نالیبوں تور جگہ جمیداری 

ہم چاہیں رسوں کاکلیا، ہم ہی پُرس توں ناری 

(ایک بار کرشن نے بھیس بدلا اور وید بن کے گلی گلی گھومنا اور پکارنا شروع کیا کہ اس شہر میں کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ یہ صدا سنتے ہی رادھا اپنے محل سے نکل پڑیں۔ اور وید کی صورت دیکھ کر پہچان کے بولیں۔ ’’اے وید جی ذرا ادھر آئیے، میری بیماری تو پہچانیے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’میں تمہاری بیماری بھلا کیا پہچانوں گا۔ تم خود ایسی آفتِ روزگار ہو کہ تمہیں دیکھتے ہی میری نبضیں چھوٹی جاتی ہیں۔‘‘ اس پر رادھابولیں۔ ’’اچھا میرے پاس تو آئیے میں آپ کی خدمت کروں گی۔ آپ کو روپیہ، پیسہ، جگہ، زمینداری سب کچھ دوں گی۔ گوکل کا راج نذر کروں گی۔ بس ٹھاٹ سے بیٹھ کے حکومت کیجیے۔‘‘ وید نے جواب دیا۔ ’’مجھے تمہاری دولت، تمہاری زمینداری اور تمہارے راج کی خواہش نہیں۔ میں تو محبت کا بھوکا ہوں۔ سو اگر تم مجھے اپنا شوہر بنالو تو راضی ہوں۔‘‘ 

آخری ٹکڑا ’’ہم ہی پرس توں ناری‘‘ رام دلارے نے آگے بڑھ کے اور نولاکھی کی طرف اشارہ کرکے اس طرح کولے کو حرکت دے کے گایا کہ سارا مجمع ہنستے ہنستے بے تاب ہوگیا۔ نولاکھی بھی دل ہی دل میں کٹ گئی۔ مگر حریف کے پہلے ہی وار میں جھجک کر پیچھے ہٹ جانا شکست ماننے کاپیش خیمہ تھا اور وہ اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اس طرح کے مقابلوں میں ’’ور‘‘ ہی رہتی تھی۔ اس لیے قبل اس کے کہ رام دلارے کچھ اور کہہ سکےاس نے اس برہے کی آخری کڑی حد درجہ تحقیر آمیز لہجے میں ہاتھ چمکاکے گادی: 

’’نیا پر چڑھ کے گول کاٹے لاکھنیا آکھر جیتا کاتوں اہیر‘‘ 

(کنہیا کشتی پر چڑھ کے چکر لگاتے ہو۔ یعنی ہر پھر کے اپنے ہی مطلب کی کہتے ہو۔ آخر تم ذات کے اہیر ہو نا!) 

ناگن نے سپیرے کا پہلا وار خالی ہی نہیں دیا بلکہ خود چوٹ کر گئی! 

گھنٹوں مقابلہ ہوتا رہا۔ دونوں نےاس قدر برہے اور گیت گائے کہ گلے پڑگئے۔ اب خاموش ناچ کاجواب ناچ سے دیا جارہا تھا۔ رام دلارے نے کرتہ اتار کر پھینک دیا تھا۔ ’’دھوتی کا کاچھا‘‘ کس لیا تھا۔ نولاکھی نے ساری کا آنچل کمر سے لپیٹ لیا تھا۔ اور ’’پھپتی‘‘ لنگی کی طرح یوں کھینچ کر پیچھے کھونس لی تھی کہ گوری گوری پنڈلیاں صاف دکھائی دیتی تھیں۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں گلاب کی پتیوں پر شبنم کی قطروں کی طرح جھلک رہی تھیں۔ آنکھیں خون سے بھری کٹوریاں ہو رہی تھیں۔ ہونٹ بالکل بنفشی تھے، مگر مسکراہٹ سے دانتوں کی بتیسی بار بار چمک اٹھتی تھی۔ اور کمر اور کولے کی حرکت برابر مشین کی طرح جاری تھی۔ 

رام دلارے کو زیادہ تکان نہ تھا، وہ مرد تھا، پہلوان تھا، بن بیاہا تھا، وہ دس بارہ گھنٹے ایک طرح ناچ سکتاتھا۔ مگر مقابل کوئی مرد نہ تھا۔ ایک نازک اندام، سیمتن عورت تھی۔ پھر بھی وہ گھنٹوں سے کھڑی برابر کامقابلہ کر رہی تھی۔ ہر برہے کی جواب میں کوئی برہا یا گیت گاتی۔ جب تک گلا نہ پڑا تھا خاموش نہ ہوئی تھی۔ ناچتی بھی اس خوبی اور دل فریبی سے تھی کہ جسم کی ہر حرکت اور اعضاکی ایک ایک جنبش بوڑھے ’’پھونس‘‘ اہیروں کے دل و دماغ میں آگ لگادیتی تھی۔ اس کااستقلال یہ بتاتا تھاکہ وہ بات پر جان دیدے گی۔ مگر ہار نہ مانے گی۔ انداز کہتا تھا کہ تھک کے چور ہوگئی ہے، مگر مسکراہٹ بتاتی تھی کہ جب تک دم میں دم ہے ناچے جائے گی۔ رام دلارے نادیدہ عاشق تھا۔ پیغام بھیج چکا تھا۔ مگر آج اس باہمت مقابلہ نےاس کے دل میں وہ جذبۂ ایثار پیدا کردیا جو وفورِ محبت ہی کے بعد ممکن ہے۔ 

اس نے دفعتاً انگڑائی لی اور مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ نولاکھی ناچتے ناچتے گھبراکے ٹھٹکی، پھر تن کے کھڑی ہوگئی۔ رام دلارے نے اس کے قدموں کی طرف ہاتھ لے جاکے کہا: 

’’دیوی جی! ہم ہار گئی لیں۔ تہار ایسن ناچ اِہ دیس ماں کیہو کا ناآوت۔‘‘(دیوی میں ہار گیا۔ تمہارا سا ناچ اس ملک میں کسی کو نہیں آتا) 

جناتیوں نے اس پر خوف خوب تالیاں بجائیں اور فقرے کسے۔ اہیرنوں نے گالیاں دے دے کے ’’ہار گوا! ہار گوا!‘‘ کاشور مچایا۔ مگر نولاکھی نے رام دلارے پر ایک چھچلتی ہوئی نظر ڈالی اور سرجھکائے چپکی اپنے جھونپڑے میں چلی گئی۔ نگاہیں کہتی تھیں کہ رام دلارے کی شکت مان لینے نے جیت کو ہار بنادیا اور ہار کو جیت! 

سپیرے نے ناگن کو جڑی سنگھاکر مدہوش کر دیا تھا، اب وہ اس کے قابو میں تھی۔ 

اس واقعے کے پندرھویں دن رام دلارے چھیدی پور پھر آیا۔ دن بھر اہیرٹولی میں رہا۔ شام کو جب رام نگر واپس جانے لگا تو نولاکھی سرخ چادر اوڑھے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اور سکھیاں بابل گا رہی تھیں۔ مگر رام دلارے کا انداز ہی نرالا تھا۔ وہ بائیں کاندھے پر لاٹھی رکھے اسے الٹے ہاتھ سے سنبھالے تھا اور داہنا ہاتھ کبھی کان پر کبھی کمر پر رکھتا اور مستانہ وار ناچتااور گاتا جاتا تھا: 

رام رام کی بھجن کرو، رام پردھرو دھیان 

محرم ہوئے وہی پہچانے، ایسا جوڑ ہمارا ہے 

جہاں جہاں جائے اپنی ہو بیٹھے ایسا موہن پیارا ہے 

انکھیاں اِہ کی کھنجر ایسی، چلیاں اِہ کی دھارا ہے 

دیکھو پنچو اہیر دیکھو، ای ہی ہمرا پیارا ہے 

اسی سے ہار کے اِہ کے جیتا، یہی گھات کٹارا ہے 

ایسی گھتیا ناکوئی جانے، جانے رام دلارا ہے 

محرم ہوئے وہی پہچانے، ایسا جوڑ ہمارا ہے 

رام رام کی بھجن کرو، رام پردھرو دھیان 

(رام رام کرو اور اسی کادھیان رکھو۔ میرے کفو کو سوائے خاص خاص لوگوں کے ہر ایک نہیں پہچان سکتا۔ وہ جہاں جاتی ہے اپنی موہنی اور پیاری صورت کی وجہ سے دل میں گھر کرلیتی ہے۔ اس کی آنکھیں خنجر ہیں، اس کی چال میں دریا کی روانی ہے۔ اے پنچو ادھر دیکھو یہی میری پیاری ہے اسی سےہار کے میں نے اسے جیت لیا۔ یہی ترکیب سب سے زیادہ کارگر تھی۔ ایسی چالیں سوائے رام دلارے کے دوسروں کو نہیں آتیں (یہی تو وجہ ہے) کہ میرے کفو کو بھی سوائے مخصوص لوگوں کے ہرکس و ناکس نہیں پہچان سکتا۔ اور اسی لیے فرض ہے کہ رام رام کرو اور اس کا دھیان کرو۔ 

وہ ہر کڑی پر رُک کے کھڑا ہوجاتا۔ کولے اور کمر کو حرکت دیتا پھر ناچتا ہوا نولاکھی کے گرد گھومتا اور آگے بڑھتا۔ نولاکھی شرماتی، لجاتی، بدن چراتی، مگر گھونگٹ سے ’’تیر نیم کش‘‘ مارنے سے باز نہ آتی تھی۔ 

ہاں ہاں، سپیرے کے منتروں نے ناگن کو ایسا رام کیا تھا کہ وہ اب اس کے گلے کا ہار تھی۔ 

   1
0 Comments